بدنام ہوئے ہم ،پھرشہرت بھی ہوئی اپنی

0
30

ابونصر
اس وقت پورے ملک میں اور پوری قوم میں مسلمانوں کو جھوٹا پروپیگنڈا کر کے جس قدر بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسا پہلے نہیں ہوا تھا۔نادان اور بے علم مسلمان اس سے گھبرا گئے ہیں۔جب کہ اہل علم اور اہل حق مطمئن ہیں کہ جو کام اپنے لیے وہ خود نہیں کر سکتے تھے،اللہ نے اُن کے دشمنوں سے وہ کام کرادیاہے ۔
اس مضمون کو ان حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مکہ میں جب آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کی ایک مخصوص آبادی نے ا ُس پیغام کو سنااور اُس کا انکار کر دیا۔ حضرت محمد ﷺآخری نبی ہیں اس کی تشہیر کرنا، اُن کے اور اُن کے ساتھیوں کے بس میں نہیں تھا۔لیکن جب دشمنوں نے پوری قوم میں یہ جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا کہ ہماری قوم کا ایک آدمی جادوگر، مجنوں اور شاعر ہے، اُس پر جن کا سایہ ہو گیا اور وہ بہکی بہکی باتیں کر کے ہمارے مذہب اور معبودوں کو بدنام کر رہا ہے، تو حضرت محمد ﷺ کے نبی مبعوث ہونے کی بات پورے عرب میں پھیل گئی۔
اسی طرح پوری دنیا میں اسلام کی دعوت تمام لوگوں تک پہنچانا مسلمانوںکے بس کی بات نہیں تھی،لیکن جب اسلامی دہشت گردی کا جھوٹا پروپیگنڈا اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں نے شروع کیا تو پوری دنیا اسلام اور مسلمان کے لفظ سے آشنا ہو گئی، اور اسلام ہر گھر اور ہر دل و دماغ تک پہنچ گیا۔اکے بعد جوہوش مند اور سمجھ دار لوگ تھے اُن کو سچائی جاننے کا خیال آیا اور وہ اسلام کا مطالعہ کرنے لگے۔
اس کے بعد موجودہ دنیا کے انسانوں کی بھی ایک بڑی تعداد اسلام کی طرف راغب ہوئی اور ایمان کی دولت سے فیض یاب ہو گئی۔
اس وقت جو لوگ ملک کی حکومت پر قابض ہیں، اُن کے پہلے ذمہ داروں نے جب عوام سے ترقی اور خوش حالی کے نام پر ووٹ مانگا تو اُن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اُنہوں نے جب مسجد مندر کی بات چھیڑی اور اس کے ذریعہ ملک میں مسلم دشمنی کا ماحول پیدا کرنا شروع کیا تو اُن کو زبردست کامیابی ہاتھ آئی اوراُن کی سمجھ میں آ گیا کہ حکومت پانا ہے تو ترقی اور خوش حالی کا نغمہ فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ مسلم دشمنی کا دیپک راگ چھیڑا جائے تو اس سے اُن کی سیٹوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ووٹوں کا تناسب بھی بڑھا گا۔اور پھر وہ اسی کام میں تن من دھن سے لگ گئے۔اس وقت مسلم دشمنی کا ماحول کسی غلط فہمی یا انجانے پن کی وجہ سے نہیںجان بوجھ کر سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا جارہا ہے۔یہ مہم بند یا کم نہیں ہوگی بلکہ تیز سے تیز تر ہوتی جائے گی۔
اس معاملے کا دوسرا مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ وطن عزیز میں غیرمسلم صحافی، دانشور اور انصاف پسند حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد پیدا ہوگئی ہے ۔
جس نے مسلمانوں کے بے قصور ہونے کی وکالت شروع کر دی اور سرکاری پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیاکو جھوٹاثابت کرنے کا جہاد چھیڑ دیا۔ایسے بھی لوگ سامنے آئے جنہوں نے سابقہ ہندوستانی مسلمانوں کے کارنامے بتائے اور ثابت کیا کہ مسلمان ملک اور قوم کے دشمن نہیں بلکہ ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔غیر مسلم دنیا کے انصاف پسندوں کی مسلمانوں کے حق میںایسی شدید اور پر زور حمایت ملک میں اس سے پہلے دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی تھی۔گویا… پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
اس کے علاوہ اس مصیبت کی گھڑی میں جو مسلم گروہ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کی بھی مدد کر رہے ہیں اُ س کی وجہ سے غیر مسلم اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمارے اپنوں کے مقابلے میں مسلمان ہمارے اپنے بن ثابت ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کے اچھے ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔میں شروع سے یہ باتیں لکھتا رہا ہوں کہ آخری نبی ﷺنے دنیاوی ترقی، خوش حالی اور پڑھ لکھ کر دولت مند بننے کے نام پردین کی اشاعت و دعوت کاکام نہیں کیا تھا، بلکہ حیوان صفت انسانوں کو با اخلاق اور با کرداربنا کرانسانی سماج کو خوش حالی، ترقی اورامن و سکون کی حالت میں لایا تھا۔وہ بزرگان دین جو اس ملک میں آئے اوراُنہوں نے یہاں اسلام کی شمع روشن کی اُنہوں نے یہاں کی آبادی کو وہ باتیں نہیں کہی تھیں جو اس وقت ملت کا اعلیٰ دانشور طبقہ سکھارہا ہے اور جس پر ملت کو ملامت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔اُنہوں نے یہاں کے لوگوں کو خلوص اور محبت کی شمشیر سے،اونچ نیچ کے وائرس کو مار کر اور اُن کو گلے لگا کر برابری کا درجہ دینے کی اینٹی بایوٹک سے اور اُن کو سچائی اور ایمانداری کا سبق پڑھا کر حیوان سے انسان بنایاتھا اور ایمان کی نعمت سے مالاما ل کیا تھا۔چنانچہ قیامت تک اسلام مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق ، ہمدردی، خیر خواہی اور اپنائیت کی عملی شہادتوں سے پروان چڑھتا رہے گااور مسلمان اپنے ہم وطنوں میں عزت اور محبت کی نظر سے دیکھے جائیں گے اور دشمنوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی کاٹ اسی سے ہوگی۔اعلیٰ اخلاق اور صالح کردار ہی اہل اسلام کی وہ اصل پونجی ہے جس سے اُن کی دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ تعالیٰ اُن کو فلاح و نجات کے انعام سے نوازے گا۔قرآن میں ناامیدی کو کفر کہا گیا ہے اور مایوس ہونے کی بات شیطان سے منسوب کی گئی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہر دعوے دار کو پہلے آزماتا ہے اور پھر سچا ثابت ہونے پر ہر طرح کی نعمت سے نوازتا ہے۔اس لیے جو اصلی اور حقیقی مسلمان ہیںاُن کو موجودہ حالات میں ناامیدی اور مایوسی کے دلدل سے نکل کرامید اور امکان کے گلشن کی سیر کرنی چاہئے۔
ہر علاقے کے مسلمان دولت کے لالچی اور دنیا کے طلب گار بننے کی جگہ اگر اپنوں اور بیگانوں کے ہمدرد، غم خوار، مددگار اورخیر خواہ بن جائیں تو اُن کی حاظت اللہ بھی کرے گا اور اہل وطن بھی اُن کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ صارمؔ عظیم آبادی نے کیا خوب کہا ہے:اخلاق کے چمن کو سنورنا بھی چاہئے-نیکی کو زندگی میں ابھرنا بھی چاہئے-دنیا اٹھائے فائدہ جس سے تمام عمر-کچھ ایسا اس جہان میں کرنا بھی چاہئے-صارمؔ حیات ایک حقیقت کا نام ہے-خوابو ں کے دائرے کو بکھرنا بھی چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here