’’دوا بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ہے‘‘

0
58

سراج نقوی
چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر کرونا سے متعلق مذاکرے میں بولتے ہوئے ’سوراج انڈیا‘ کے لیڈر یوگندر یادو نے لاک ڈائون کے تعلق سے بہت عجیب بات کہی۔یادو نے اس تعلق سے کہا کہ’’دوا بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔‘‘یادو کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ لاک ڈائون کو جس طرح نافذ کیا گیا ہے اس کے سبب یہ لاک ڈائون اصل بیماری یعنی کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
یادو کی اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ایک بات تو بہرحال سچ ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے لاک ڈائون کے حکومت کے فیصلے نے ملک کے غریب اور مزدور طبقات کے سامنے ایسی مشکلات پیدا کر دی ہے کہ جن کے اثرات سے یہ طبقہ برسوں تک نہیں ابھر پائیگا۔یہ بات تو وزیر اعظم ہی بہتر جانتے ہونگے کہ انھوں نے جنتا کرفیو یا لاک ڈائون کے فیصلے کا اعلا ن کرتے وقت اپنے کسی کابینہ ساتھی یا اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی سے مشورہ کیا تھا یا نہیں،لیکن فیصلے کے نفاذ سے صرف چند گھنٹے قبل اس کے اعلان نے جو مسائل یومیہ مزدوروں کے سامنے پیدا کیے اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی آنند وہار دلّی،کبھی احمد آباد،کبھی راجستھان اور مغربی بنگال اور کبھی ممبئی کے باندرہ میں ان مزدوروں کے جمع ہو کر اپنے وطن کے لیے کوچ کرنے کی خبریں آتی ہیں اور انتظامیہ و حکومت کے سامنے سخت مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ لاک ڈائو ن کے فیصلے کو سختی سے نافذ کیا جائے لیکن انسانی دردمندی کے اس اہم سوال کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جو لوگ اس لاک ڈائون کے نتیجے میں فاقہ شکنی کے شکار ہیں وہ کیا کریں؟یہ درست ہے کہ تمام دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ کرونا سے بچنے کا سب سے بہتر راستہ سوشل ڈسٹینسنگ ہی ہے اور یہ لاک ڈائون کی صورت میں ہی ممکن ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان جیسے ملک میں سوشل ڈسٹینسنگ کا نفاذ واقعی سب کے لیے ممکن ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ملک کی ایک بڑی شہری آبادی ایسے مکانوں میں رہنے کے لیے مجبور ہے کہ جس میں ایک مختصر سے کمرے میں چار پانچ یا کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ لوگ رہ رہے ہیں۔ممبئی کا دھاراوی علاقہ اور ملک بھر کی دیگر جھگّی بستیاں اس کا ثبوت ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اتنے مختصر اور تنگ وتاریک مکانوں کے مکین لاک ڈائون پر عمل کرنے کے باوجود سوشل ڈسٹینسنگ پر بھی عمل کر سکتے ہیں؟ظاہر ہے ان کے لیے ایسا کرنا ان کی غربت اور تنگ رہائش کے سبب ممکن نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت کے پاس اس مسئلے کا فی الحال کوئی علاج نہیں۔البتہ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج بھی ہندوستان کی بڑی آبادی کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں گائوں سے ہی ہے۔غریب طبقات کے پاس بھی گائوںمیں شہر کے مقابلے میں نسبتاًبڑے مکان ہیں۔یہ لوگ صرف تلاش معاش کی مجبوری کے سبب ہی گائوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ایسے لوگوں کے پاس شہروں میں بھی روزگار کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔جبکہ گائوں میں بیحد کم ہی صحیح لیکن پھر بھی پیٹ بھرنے کے وسائل موجود ہیں۔شہروں میں روزگار سے محروم ہونے والوں کے لیے متعلقہ ریاستوں کی حکومتوں کے ذریعہ دو وقت کا کھانا مہیا کرانا مشکل ہو رہا ہے۔اس مسئلے کا نامکمل ہی سہی لیکن یہ حل ہو سکتا تھا کہ لاک ڈائون کو منصوبہ بند طریقے سے نافذ کیا جاتا اور ایسا میکانزم تیار کیا جاتا کہ آہستہ آہستہ تمام دیہی علاقوں سے وابستہ مزدوروں کو ان کے گائوں تک پہنچنے کا موقع دیا جاتا۔حالانکہ اس میں کرونا کے پھیلنے کے خطرے سے انکار نہیںکیا جا سکتا لیکن یہ خطرہ تو ان لوگوں کے شہروں میں بیحد چھوٹے گھروں میںرہنے پر بھی موجود ہے۔ریاستی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کو یہ ذمہ داری دی جا سکتی تھی کہ وہ شہروں سے آنے والوں کی کم از کم ابتدائی اسکریننگ کریں۔دیہاتوں میںگرام پردھان وغیرہ کو یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی تھی یا دوسرا کوئی بہتر اور موثر متبادل تلاش کیا جا سکتا تھا۔ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ اگر لاک ڈائون کا اعلان اور اس کے نفاز میں چند روز کا فاصلہ رکھا جاتا تو مزدوروں کی ہنگامہ آرائی کی جو خبریں ملک کے مختلف حصوں سے آرہی ہیں ان سے بڑی حد تک بچا جا سکتا تھا ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔دراصل بیحد سنجیدگی اور ذمہ داری کے متقاضی اس مسئلے کو کسی چونکانے والے سیاسی کرتب کی طرز پر حل کرنے کی کوشش نے مزدوروں کے سامنے زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ہر معاملے میں خود نمائی،نرگسیت اور خود سری کا مظاہرہ کرنے کے جنون نے کرونا سے جنگ کو کمزور کیا ہے،اور لاک ڈائون کے بہتر نتائج بر آمد ہونے کے باوجود اس کے غیر منظم نفاذ نے پریشانیاں بڑھائی بھی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ ۲۰ مارچ سے تادم تحریر ملک کے عوام سے بشمول ’من کی بات ‘ کئی مرتبہ خطاب کیا ہے۔اپنی ان تقاریر یا خطاب میں وزیر اعظم نے مسئلے کے حل کے تعلق سے کام کی کتنی باتیں کیںاس کا مناسب تجزیہ کرنابڑے سیاسی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا کام ہے ۔راقم کی کم فہمی وزیر اعظم جیسے بڑے عہدے پر بیٹھی ہوئی کسی شخصیت کے افکا ر کا تجزیہ کرنے کی متحمل بہرحال نہیںہے۔البتہ یوگندر یادو نے چینل پر ظاہر کیے گئے اپنے خیالات میں جس طرح بیماری سے زیادہ اس کی دوا یعنی لاک ڈائون کو خطرناک بتایا ہے وہ باعث تشویش ہے۔حکومت اور خود وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریر میں لوگوں سے غریبوں کی مدد کی اپیل کی ہے۔مکان مالکوں سے کرایہ چھوڑنے کی اپیل بھی کی گئی ہے،لیکن کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ جس طرح دلّی کی کیجریوال حکومت نے مکان کا کرایہ ادا کرنے سے قاصر لوگوں کا مکان کا کرایہ خود ادا کرنے کے لیے کہا ہے اسی طرح مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی حکومتیں بھی اس سلسلے میںاپنا تعاون دیتیں۔کرونا کے خلاف جنگ لڑنے میں جس مزدور طبقے کی قربانیوں کا ذکر خود وزیر اعظم نے کیا ہے اس طبقے کو اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے کا موقع دیکر ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جا سکتا تھا ۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔اس کے برعکس ان کے خلاف قانونی کارروائیاں کرکے ان کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی گئی۔جبکہ دوسری طرف غیر ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو بذریعہ ہوائی جہاز وطن واپس بلایا گیا۔ملک سے دور اور اپنے آبائی شہروں سے دور رہنے والوں میں اس تفریق کا آخر کیا سبب ہے؟سچ پوچھیے تو ملک سے دور رہ کر کمانے والوں کو ان مسائل کا فی الوقت اتنا سامنا نہیں ہے جتنا کہ اپنے گھر سے دور ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے لیے جانے والوںکو ہے۔لیکن انھیں نہ صرف یہ کہ بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا بلکہ لاک ڈائون توڑنے کے ان کے عمل کو روکنے کے لیے ہمدردانہ رویہ بھی نہیں اپنایا گیا۔کہیں ان لوگوں پر لاٹھی چارج ہوا ،کہیں انھیں کافی زیادہ پیسے ادا کرنے پر بھی گھر تک پہنچنا نصیب نہیں ہوا اور کہیں حکومت،پولیس یا انتظامیہ نے ان کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی۔
مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا پر ان غریب اور لاچار لوگوں کے تعلق سے جو خبریں سامنے آرہی ہیں وہ کسی بھی دردمند انسان کی آنکھیںنم کرنے کے لیے کافی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمراں بھی ان لوگوں کی آہیں سن رہے ہیں، اور ان کے مسائل کو سختی سے لاک ڈائون کے نفاذ کے درمیان ہی حل کرنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جا رہا ہے؟اگر ایسا نہیں کیا جا رہا تو پھر یوگیندر یادو کے اس رد عمل کے پس پشت چھپی وارننگ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ’دوا بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here