اویسی کے یوپی میں داخلہ سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی

0
100
Asaduddin Owaisi (AIMIM President)

Ali Ashhad Azmi

از قلم : علی اشہد اعظمی
بہار کے بعد اب اترپردیش کا اسمبلی انتخاب زیر بحث ہے ۲۰۲۲ کے شروعات میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان متوقع ہے آل انڈیا مجلس اتحادلمسلین کے قومی صدر اسد دین اویسی نے یوپی سے الیکشن لڑے کا فیصلہ کر لیا ہے بہار اسمبلی انتخابات میں ۵ سیٹوں کی نمایا کامیابی کے بعد اویسی صاحب نے یوپی میں اپنی قسمت آزمانے کی دستک دے دی ہے ان کے اعلان کرتے کی اترپردیش کے سیاسی حلقوں میں ہلچل تیز ہوگئی ہے اور ساتھ ہے اویسی صاحب نے اپنے پہلے عوامی جلسے کا اعلان بھی کر دیا ہے مجلس کے قومی صدر اسد دین اویسی صاحب یوپی میں ۱۲ جنوری کو جون پور سے اپنی شروعات کریں گے اور اس کے علاوہ اعظم گڑھ کے کئی دینی مدرسوں میں دورہ کی خبر بھی آرہی ہے
ہندوستان کی سیاست کا دل اتر پردیش سب سے زیادہ اسمبلی سیٹوں والی ریاست ہے اسمبلی سیٹوں کے لحاظ سے ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے صوبے بہار میں مجلس نے حد درجہ کامیابی حاصل کی تھی اور اس کامیابی سے مجلسی کارکنان میں ایک الگ حوصلہ دیکھنے کو ملا جس کے چلتے اس بار اترپردیش میں بھی قسمت آزمانے کا اعلان کر دیا گیا بہار اور اترپردیش ہندوستان کی واحد وہ ریاست ہے جہاں ذات اور مذہب کی بنیاد پر چناؤ ہوتے ہیں پھر چاہے وہ سیٹوں کا یا سیاسی عہدوں کا بٹوارہ ہو اکثر و بیشتر ہر جگہ ذاتی چہرہ دیکھ کر عہدے اور ٹکٹ دئے جائے ہیں اسی بیچ اویسی صاحب کی انٹری اتر پریش کی سکیولر پارٹیاں جیسے سماجوادی پارٹی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس میں ایک ڈر کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ان میں سے ایک پارٹی کانگریس جو قومی سطح کی پارٹی ہے جس کا یوپی میں اتنا اثر نہیں ہے لیکن اپنے اقتدار میں رہتے ہوئے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے لئے کچھ خاص عمل نہیں کیا بقیہ دو پارٹیاں اکھیلیش یادو کی سماج وادی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے باری باری کئی بار اترپردیش میں اقتدار میں رہے لیکن ہر بار انتخابات سے پہلے صرف وعدے کئے گئے اور کامیابی کے بعد ایک سیاسی جملے کی طرح مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو کوڑے دان میں ڈالنے کا کام کیا گیا ، اکھیلیش یادو نے مسلمانوں کو ۱۸ فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا جو کہ الیکشن جیتنے کے بعد اس کو پورا نہیں کر سکے اور سماجوادی کی سرکار میں ہی اتر پریش کے سب سے خطرناک دنگے مظفر نگر دنگے ہوئے جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جانی وہ مالی نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے چلتے مسلمانوں کی ناراضگی اتنی بڑھی کی ۲۰۱۷ میں سماجوادی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح مایاوتی کے دور اقتدار میں بھی مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھائے گئے بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر مایاوتی کے ہی دور اقتدار میں ہوا تھا انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوان اعظم گڑھ سے تھے انہیں آج تک انصاف نہیں ملا ، وقتاًفوقتاً دونوں سکیولر پارٹیاں مسلمانوں کے جزبات سے کھیلتی رہیں اور آج دونوں اپنے وجود کو تلاش رہی ہیں جبکہ آج یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں یوپی میں بی جے پی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے جب یوگی راج میں ہورے چوری ڈکیتی عصمت دری غنڈہ گردی سے اترپردیش سرکار پوری طرح سے ناکام ثابت ہوتی دکھائی دے رہی تھی اور اکھیلیش اور مایاوتی کو ایک امید دکھ رہی تھی لیکن اسی بیچ اویسی اور کیجریوال کی انٹری سے ان دونوں پارٹیوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے کیجریوال کا دہلی ماڈل جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مفت تعلیم ، مفت بجلی ، مفت پانی اور مفت اسپتال ان کا سیاسی ہتھیار ہے جو عام آدمی پارٹی نے دہلی میں کرکے دیکھایا ہے جو کہ براہمن اور کچھ مسلم ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اس کے علاوہ اویسی کی انٹری بھی سیاسی حلقوں میں بحث کا ذریعہ بنی ہوئی ہے مسلم نوجوان کی ایک خاصا تعداد اویسی کو پسند کرتی ہے جو اترپردیش کے سایسی سمیکرن کو بگاڑ سکتی ہے بہار کے مقابلے اترپردیش میں زیادہ سیٹیں ہیں اور یہاں بھی اویسی نے بی جے پی کے سابق وزیر اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی سے مل کر مسلم اکثریتی حلقوں سے امیدوار اتارنے کا من بنا لیا ہے
اس بیچ اگر ووٹنگ فیصد کے حساب کتاب سے دیکھا جائے تو یوپی کی ایسی بہت سے سیٹیں ہیں جہاں سے بی جے پی دوسرے یا تیسرے نمبر تھی اب اویسی صاحب کے آنے سے ان سیٹوں پر بی جے پی کا راستہ صاف دکھائی دے رہا ہے ایسا قیاص لگایا جارہا ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات پر اگر نظر ثانی کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ جو ۱۰ سیٹیں تیجسوی کو کم پڑیں تھی وہ کم نہ پڑتیں اگر اویسی اور تیجسوی ایک حمکت عملی کے تحت چناؤ لڑتے تو نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا لیکن یہ نام نہاد سکیولر پارٹیاں مسلمانوں کا ووٹ تو چاہتی ہیں لیکن ان کو سیاسی حصہ داری نہیں دینا چاہتی ہیں ، دراصل سیاست میں دو راستے ہوتے ہیں ایک تو اعلانیہ طور پر اتحاد کر لیں دوسرا پیچھے دروازے سے اتحاد کرلیں اس سے جو آپ کا بنیادی ووٹ فرقہ واریت کی نذر کا نہ ہوجائے اس کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے اور دوسرا جہاں ایم آئی ایم مضبوط دکھائی دے رہی ہے وہاں یہ لوگ اپنا کمزور امیدوار اتاریں اور جہاں وہ لوگ مضبوط ہیں وہاں ایم آئی ایم نہ لڑے جیسا ۲۰۱۹ کے مہاراشٹر الیکشن میں ممبئی سماجوادی صدر ابوعاصم اعظمی صاحب اور اسد دین اویسی صاحب کر چکے ہیں اور اس کا فائدہ بھی ملا لیکن اگر نام نہاد سکیولر پاٹیاں ایسا نہیں کرتی ہیں تو ان کو اِن کے حال پر چھوڑ دیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے سیاسی وجود کی لڑائی لڑیں کیونکہ سیاست میں جیتنا بھی ضروری ہوتا ہے اور دو چار سیٹوں پر ہروانا بھی ضروری ہوتا ہے تا کہ سامنے والے کو اس بات کا احساس ہو کہ ہم نے ان کو ساتھ نہ لے کر بہت بڑے غلطی کی ہے
ویسے اویسی صاحب کو چاہیے کہ اترپردیش میں 50 سیٹ سے زیادہ پر نہیں لڑیں کیونکہ اگر زیادہ سیٹوں پر لڑیں گے تو پارٹی کی حیثیت کم ہو جائےگی
اگر مضبوط امیدوار اتاریں اور تیاری کے ساتھ کم سیٹوں پر لڑیں اور اس میں سے کچھ سیٹیں جیت جائیں تو آگے اور پارٹیوں کی طرف سے اچھا رسپانس ملے گا اور ان تک یہ پیغام بھی جائیگا کہ مجلس سیاست بہت اچھی اور تیاری کے ساتھ کرتی ہے اور آگے ہاتھ ملانے کا آپشن کھلا رہیگا جیسا بہار میں ہوا ہے۔Inline image

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here