کورونا مریض کی ڈائری کا ایک ورق

0
118
محمد شاہد خان

زندگی کے نہ جانے کتنے رنگ وروپ ہیں ، اپنے پٹارے سے وہ کس دن کون سا تماشہ نکال کر پیش کردے ، کوئی نہیں جانتا ، انکل سام دوسری بار صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے بے قرار تھے ، ہندتوا اپنے ایجنڈے کی تنفیذ کے لیے حد درجہ اتاولا تھا ، ایک اپریل سے NPR کی قواعد شروع ہونے والی تھیں ، شام میں استعماریت پسند عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی جاری تھی ، چائنا سوپر پاور بننے کی تاک میں کب سے موقع کا منتظر تھا کہ اس درمیان اچانک ,کرونا , جی نے آکر ساری کرونولوجی بدل دی ، پوری دنیا گلیشیئر کے برفانی تودوں کی طرح منجمد ہوکر رہ گئی اورلوگ کسی دیو ہیکل مشین کے کل پرزوں پر نٹ بولٹ کی طرح کَس دئے گئے ۔جب تک کرونا چین کی سیر پر تھا تب تک دنیا اپنے آپ میں مگن تھی لیکن جیسے ہی وہ ورلڈ ٹور پر نکلا ویسے ہی دنیا کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوگئے اور تغیر حیات کا ایک ایسا دور شروع ہوگیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔کرونا جی انسانوں کے تعمیر کردہ شیش محل پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ پوری دنیا مل کر بھی ان پر شکنجہ کسنے میں اب تک ناکام ہے ، وہ اپنا ماسٹر پلان کسی پر ظاہر نہیں کرتے ، نہ کسی کو اپنی صحیح شناخت بتاتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ وہ کب اور کس وقت کس راستے سے حملہ آور ہونے والے ہیں ، حکومتوں کی تمام سراغ رساں ایجنسیاں مل کر بھی ان کا تعاقب کرنے میں ناکام ہیں ۔جب انھوں نے مڈل ایسٹ کا رخ کیا اسی وقت سے ہمیں دھڑکا لگا ہوا تھا اسی لیے اسی وقت سے ہم نے لوگوں سے اپنا فاصلہ بڑھا لیا تھا اور بشیر بدر کا یہ شعر ہمیں شدت کے ساتھ یاد آنے لگا تھا کہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کرو
چنانچہ ہم نے اس کے بعد سے ہی مصافحہ کرنا ترک کردیا تھا ، اجتماعی عبادتوں میں دل پہلے بھی کم لگتا تھا لیکن اب تو نماز باجماعت نہ پڑھنے کا بہانہ بھی مل گیا تھاگھر سے نکلتے وقت پوری تیاری سے نکلتا گاڑی میں sensitizer اور گیلے ٹیشو رکھتا جب گاڑی سے اترتا تو ماسک پہن لیتا، اور اتھارٹی کے خوف سے کبھی کبھی دستانے بھی پہن لیتا ، بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر جانے سے خود ہی گریز کرتا کہ کہیں کوروناجی سے بھینٹ نہ ہوجائے .ادھر میڈیا کرونا جی کو غیر معمولی کوریج دینے لگا تھا ، یورپ میں ہونے والی اموات نے ہمیں اور بھی زیادہ خوف زدہ کردیا تھا اور سب سے زیادہ خوف لوگوں کے اس رویہ کی وجہ سے تھا جو کرونا مریضوں کے تئیں اختیار کیا جارہا تھا کہ جیسے وہ کوئی مریض نہ ہو کر کوئی ایٹم بم ہو ۔بطور مسلمان ہمارا یقین کامل ہے کہ موت کا ایک دن متعین ہے جو اپنے وقت سے پہلے نہیں آسکتی لیکن ہستی کی دلفریبیاں بھی تو کچھ کم نہیں ہیں ابھی اس سے دل کہاں بھرا ہے ؟ ابھی تو دنیا کے بے شمار دلفریب نظاروں سے آنکھوں کو روشن کرنا ہے ، ابھی قدرت سے سرگوشیاں کرنی ہیں ، ابھی اسکی زلفوں کو سنوارنا ہے ، ابھی گل وبلبل کی حکایتیں سننی ہیں ابھی اسرار کائنات کی تہوں کو کھولنا ہے ابھی حسن عالم سے ہمارا عشق نامکمل ہے ، ابھی محبوبہ کے جوڑوں کے لیے گجرا خریدنا ہے ابھی اپنی معصوم بچی کے کھلونوں کے ساتھ کھیلنا ہے ابھی اس معصوم کی ننھی کلکاریاں سننی ہیں جس نے دنیا میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے ۔ اس لیے مجھے جینا ہے لیکن یہ سوچ کر ٹینشن بڑھنے لگتی کہ اگر کہیں کرونا جی نے مجھے شہید کردیا تو کیا ہوگا ؟ کون میرے جنازے کو کاندھا دے گا ؟ کون نماز جنازہ پڑھائے گا ؟ کوئی بھی تو نہ ہوگا ، لاش کو خاک نصیب ہوگی یا نذر آتش کیا جائے گا کچھ بھی تو نہیں معلوم ؟ اور پھر ایک انجانا سا خوف دل ودماغ کو جکڑلیتا ۔ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوتا کہ بچے ابھی چھوٹے اور معصوم ہیں ان کا کیا ہوگا آگے ان کی تعلیم وتربیت کے مراحل کیسے طے ہوں گے ؟ والدین کا اکلوتا سہارا میں ہی تو ہوں میرے بعد وہ اکیلے اور بے سہارا ہوجائیں گے ۔نہیں نہیں مجھے ابھی جینا ہے اس لیے مجھے پوری احتیاط برتنی ہے مجھے ان ساری باتوں پر عمل کرنا ہے جو زندگی کی ضمانت دیتے ہیں ۔ادھر ٹیلی ویژن پر یورپ میں ہونے والی اموات اور سماج اور میڈیا کے خوفناک رویہ کو دیکھ کر کبھی کبھی دل بیٹھ جاتا کہ نہ جانے کرونا کے اس چکر ویو میں کس کی نوبت کس وقت آجائے ، بتایا جاتا ہے کہ 1918 کے اسپینش فلو سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی متأثر ہوگئی تھی اس لیے ہمیں اس بات کا اندازہ ہوچلا تھا کہ نادیدہ کرونا جی کے ہاتھ پاؤں بہت لمبے ہیں اور ابھی کافی عرصہ تک ان کا ہمارے درمیان رہنے کا ارادہ بھی ہے ، اس لیے ان کی قید سے بچ پانا مشکل ہے اور آخر ایک دن ہم ان کی قید بامشقت میں آہی گئے ۔
مرزا غالب نے کہا تھا کہ
قیدحیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
(جاری )
(مضمون نگار محمد شاہد خان ’کاروان اردو قطر‘ کے بانی رکن اور جنرل سکریٹری ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here