کلکتہ میں ایک بار پھر شہری ترمیمی ایکٹ اور این آر سی مخالف تحریک کی دستک

0
16

کلکتہ:لاک ڈاؤن 5 کے دوران معمولات زندگی شروع کرنے کی رعایت دئیے جانے کے بعد اچانک کلکتہ کی فضاؤں میں شہری ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف نعرے بازی اور احتجاج کا دور شروع ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔کل جادو پوریونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹی کے چند اور سماجی کارکنا ن جنوبی کلکتہ کے گڑیا ہاٹ کے بس اسٹینڈ پر”سب یاد رکھا جائے گا“ کے بینر لے کر کھڑے ہوئے نظرا ٓئے۔یہ نوجوان جنوری اور فروری میں ہونے والے احتجاج کا حصہ تھے۔کورونا وائر س کی مہاماری اور لاک ڈاؤن کے درمیا ن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا اور سماجی کارکنان کی گرفتاری پر یہ لوگ ناراضگی ظاہر کررہے تھے۔جادو پور یونیورسٹی کے سابق طالب علمنوامیتا چندرا نے کہا کہ مرکزی حکومت ایک بزدل حکومت ہے۔اس حکومت نے مہم کے دوران شہری ترمیمی ایکٹ اور این آر سی مخالف کے مخالفین کو گرفتار کرنے کی جرأت نہیں کیا۔مگر لاک ڈاؤن کے درمیان انہیں گرفتار کیا گیا۔یہ وہی حکومت ہے جس نے ملک کے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ لاک ڈاؤن کے درمیان سیاست نہیں کی جائے۔میں پوچھنا چاہتی کہ کیا طلبا و طالبات کی گرفتار ی گندی سیاست کا حصہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ شہری ترمیمی ایکٹ اور این آر سی مخالف مہم کا حصہ رہے طلبا کو دہلی فسادات میں ملزم بناکر مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جب کہ بی جے پی کے مرکزی وزیر انورا گ ٹھاکر اور سابق ممبر اسمبلی کپل مشرا نے کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دی تھی مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
طلبا تنظیموں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے بے قصورافراد کی گرفتاری کا سلسلہ نہیں روکا تو کلکتہ میں اس کے خلاف احتجاج تیز ہوسکتا ہے۔ناگر بازار اور گڑیا ہاٹ میں پلے کارڈ لے کر کھڑے طلباء نے معاشرتی فاصلہ کا بھر پور خیال رکھا ہے۔ایک خاتون اپنے ہاتھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبہ ’صفور را زرگر‘ کی حمایت میں بینر لے کر موجود تھیں۔صفورا کو ایک مہینے قبل دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا۔حاملہ ہونے کے باوجود صفورا کی گرفتاری پر حقوق انسانی کی کئی تنظیموں نے سخت اعتراض کیا ہے۔مظاہرین نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے بحران کے شکار ہے، جیلوں سے قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے تو مرکزی حکومت کے اشارے پر شہری ترمیمی ایکٹ مخالفین کی گرفتاری کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت بحرانی دور کو بھی اپنے مخالفین پر قابوپانے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ایک ریسرچ اسکال سمپرتی مکھرجی نے کہا کہ جب حکومت بحران کے دور میں طلبا کی گرفتاری کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ جب حکومت بحرا ن کو سماجی کارکنان اور مسلم طلبا و طالبات کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کرسکتی ہے تو پھر ہم خاموش کیوں رہے۔صفورا اور گل افشاں کا قصور کیا ہے۔اس حکومت سے ہم اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے غیر مقیم مزدوروں کو چھوڑ دیا وہ بے چارے اپنے قدموں پر چل کئی کئی سو کلومیٹر کی مسافت طے کی۔خیال رہے کہ شاہین باغ دھرنے کی حمایت میں کلکتہ کئی مقامات پر دھرنے اور مظاہرے ہوئے تھے۔ان دھرنوں میں بڑی تعداد میں کلکتہ، جادو پور اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبا شریک تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here