کرونا مریض کی ڈائری کا ایک ورق

0
90

محمد شاہد خان (مضمون نگا)

قسط -3
محمد شاہد خان
آج قرنطینہ میں میرا چھٹا دن ہے میری بیٹی نے آج اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے لیے ایک پینٹنگ بنائی ہے ، پینٹنگ کے ساتھ واٹساپ پر ایک پیغام بھی بھیجا ہے ، یہ موسم بہار کی تصویر ہے ، وادی گل پوش میں درخت کی ٹہنیاں رنگ برنگے پھولوں سے لدی ہوئی ہیں اس کی رہگزر میں گلوں کا فرش ہے اور میری بیٹی میرا ہاتھ پکڑ ے اس راستے سے گزر رہی ہے اور مجھے پھول پیش کرتے ہوئے میری اچھی صحت کے لیے دعا کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ پاپا میں آپ کو بہت پیار کرتی ہوں ، میں آپ کو بہت مِس کررہی ہوں ، میں نے آپ کے لیے پینٹنگ بنائی ہے آپ دیکھ کر خوش ہوجایئے اور جلدی سے ٹھیک ہوکر گھر آجایئے مجھے آپ کے ساتھ کھیلنا ہے ۔وہ ایک سات سال کی معصوم بچی ہے اس کی کائنات مجھ سے شروع ہوکر مجھ ہی پر ختم ہوجاتی ہے ، وہ میرے ساتھ سوتی ہے کھاتی ہے کھیلتی ہے اپنے سارے راز مجھے بتاتی ہے جب کوئی اسے ستاتا ہے تو FIR بھی میرے پاس درج کرواتی ہے جب کوئی اسے ڈانٹتا ہے تو وہ میرے نام کا سہارا لے کر اسے چپ کرادیتی ہے ، اپنی ساری ضد مجھ سے پوری کرواتی ہے ، وہ گھر میں میرے لیے جاسوسی بھی کرتی ہے ، سب کا کچا چٹھا امی کی شکایتیں ، بھائی بہنوں کی شیطانیاں سب کچھ مجھے چپکے سے بتادیتی ہے ۔جب میں ڈیوٹی کرکے گھر واپس لوٹتا ہوں تو وہ اکثر دروازے پر میرا استقبال کرتی ہے اور جب وہ اسکول جاتی ہے تو مجھ سے وعدہ لے کر جاتی ہے کہ واپسی پر میں بھی اس کا استقبال کروں ۔جب وہ اپنے ذہن سے کچھ نیا تخلیق کرتی ہے تو وہ اسے کہیں چھپا کر رکھدیتی ہے اور جب میں گھر واپس لوٹتا ہوں تو میری آنکھیں بند کرواکے وہاں لے جاتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ پاپا آنکھیں کھولیے دیکھئے میں نے آپ کے لیے کیا بنایا ہے ؟
اور جب میں اس کے کارناموں کی حیرت زدہ ہوکر تعریف کرتا ہوں تو خوش وہ ہوجاتی ہے اور گویا اسے اس کی محنت کی اجرت مل جاتی ہے اور اگر کسی کام یا الجھن کی وجہ سے اسے نظر انداز کرتا ہوں تو وہ ناراض ہوکر مجھ سے کَٹّی ہوجاتی ہے پھر میں اسے مناتا ہوں ، اپنے کان پکڑتا ہوں غلطیوں سے توبہ کرتا ہوں اور دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہوں ۔جب اسے اسکول کے لیے رات بستر پر جلدی جانا ہوتا ہے تو جلد نہ سونے کے مختلف بہانے تراشتی ہے لیکن جب کوئی بہانا کامیاب نہیں ہوتا ہے تو کہتی ہے کہ چلیے آپ مجھے سلایئے اور جب میں اس کے ساتھ بستر میں لیٹ جاتا ہوں تو وہ سکون سے سوجاتی ہے ۔موبائل میں جب وہ کچھ نیا سیکھتی ہے تو اپنی پرفارمنس دکھائے بغیر دم نہیں لیتی کبھی کبھی تو وہ ویڈیو ریکارڈنگ کرکے میرے پاس بھیج دیتی ہے اور جب تک میں رسید نہ دے دوں وہ چین سے نہیں بیٹھتی ۔گھر میں اس کے کھلونوں کا ایک گوشہ ہے جہاں وہ اکثر مشغول رہتی ہے اس کا اپنا ایک کچن ہے جہاں سے وہ ایک پلیٹ میں میرے لیے ناشتہ اور کھانا چن کر لاتی ہے اور کہتی ہے کہ پاپا لیجئے کھا لیجئے لیکن یہ اصلی نہیں ہے اور میں کھانے کی ایکٹنگ کرکے ، پلیٹ صاف کرکے اسے واپس دے دیتا ہوں کبھی کبھی وہ اپنی ایک چھوٹی سی دوکان سجاتی ہے اور مجھے گراہک بن کر اس کی دوکان پر جانا پڑتا ہے وہ فاسٹ فوڈ کمپنیوں کی طرح مینو بتاتی ہے اور میری پسند کا آرڈر پوچھتی ہے ، میں اسے آرڈر دیتا ہوں اور تھوڑی دیر میں وہ میرا آرڈر میرے ہاتھوں میں تھمادیتی ہے اور میں مٹھی بند کرکے اس کے سامان کی اجرت اسکے ہاتھوں میں رکھدیتا ہوں اور وہ بھی بغیر دیکھے اسے اپنے غلے میں ڈال لیتی ہے ۔ہمارے بیڈ روم میں اس کی اپنی ایک خاص الماری ہے جہاں اس کے سارے پسندیدہ سوٹ رکھے ہوئے ہیں وہ دن بھر میں کئی بار اپنا ڈریس تبدیل کرتی ہے اور پوچھتی ہے پاپا دیکھئے یہ ڈریس مجھ پر کیسا لگ رہا ہے ؟
بیٹیاں بڑی معصوم ہوتی ہیں وہ آپ کی دھڑکن کا ایسا حصہ بن جاتی ہیں کہ جس کے بغیر آپ رہ نہیں سکتے ، اس کی محبت میں سمندر کی گہرائی ہے اس کی مسکراہٹ میں صبح صادق کی دلفریبی ہے ، اس کی قدموں میں موسم کا دکھ سکھ ہے ، اس کی باتوں میں باد صبا کی خوشبو ہے اس کے نٹ کھٹ پنے میں موسم کی انگڑائی ہے وہ دھوپ میں بادل کا ایک ٹکڑا ہے ، وہ شہر نگاراں کا ایک گیت ہے ، وہ آسمان کا ایک تارا ہے وہ پرستان کی ایک ننھی پری ہے ، وہ ہماری سلطنت کی ایک شہزادی ہے وہ ہماری بیٹی ہے
(جاری )
(مضمون نگار ’کاروان اردو قطر‘ کے بانی رکن اور جنرل سکریٹری ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here