کورونا سے بے حال عالمی معیشت کو اب چین کا سہارا

0
17

آر کے سنہا
چین کے شہر کوروناکے قہر کو کم و بیش شکست دینے کے بعد اب چین میں زندگی پٹری پر تیزی سے لوٹ رہی ہے۔ اگرچہ، یہ مکمل طور پر عام ہونے میں ابھی اور وقت لگ سکتا ہے۔کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ووہان شہر میں مارکیٹ – دفتر اور فیکٹریاں اب آہستہ – آہستہ کھل رہیہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چین کی حکومت نے ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے صنعتی شہر ووہان میں جنوری کے آخر میں لاک ڈاؤن لگا دیا تھا، تاکہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ تقریبا ساڑھے تین ماہ لاک ڈاؤن کے اقدام کے نتیجے تو بہتر آئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چین کی گریٹ وال میں بھی سیاحوں کی آمد و رفت ہونے لگی ہے،تاہم، ان کی تعداد کافی کم ہی ہے۔ چین میں یہ حالات تب کے ہیں جب ساری دنیا میں کورونا سے بچنے کے لئے کہیں لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے تو کہیں بغیر لاک ڈاؤن کے ہنگامہ برپا ہے۔ ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ ہم کورونا پر کب مکمل طور قابو پا لیں گے۔ دنیا بھر کے لوگ اپنے – اپنے گھروں میں قید ہیں۔یعنی چین ایک طرح سے اب اقتصادی مفاد کی حالت میں آ گیا ہے۔ جب ساری دنیا میں مختلف اشیاء کی مانگ بڑھنے لگے گی تو وہ چین کی طرف ہی تو دیکھیں گے۔ چین ہی سے ان کی فراہمی ہوگی، کیونکہ، ان کے اپنے ممالک میں تو پیداوار ٹھپ ہے۔ اس میں کم و بیش بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو تو چین نے گھٹنوں کے بل پر لگا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ویسے، اس میں ہماری اپنی کاہلی بھی کم نہیں ہے کہ ہم نیخودکو خود کفیل بنانے کی کوششیں ہی نہیں کیں۔ چین سے ہندوستان تیارچیزیں، خاص طور پر طرح – طرح کی مشینری، ٹیلی کام آلات، بجلی کے سامان، کھلونے، الیکٹریکل مشینری اور سامان، میکانیکل مشینری اور سامان، تیار فرنیچر پروجیکٹ سامان، جنرک ادویات بنانے کے لئے ضروری خام مال، آرگینک کیمیکل، لوہے اور اسٹیل وغیرہ کی اہم چیزیں در آمد کرتاہے۔ ویسے بھارت میں یہ صلاحیت اور طاقت دونوں ہی کافی ہے کہ ہم ان میں سے زیادہ تر چیزیں ملک کے اندر خود ہی بہتر طریقے سے تیار کرسکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے بجلی اور ٹیلی مواصلات کے سامان کی درآمد میں کافی تیزی آئی ہے۔
اگرچہ چین کی معیشت بھی فی الوقت کورونا کے اثر کی وجہ سے تقریبا خستہ حال ہوچکی ہے۔ پر اس میں خود کو کھڑا کرنے کی صلاحیت، طاقت اور نظم و ضبط تو ہے ہی۔ چین میں بھی فیکٹریوں میں پیداوار تیزی سے گھٹی ہے۔ بیرون ملک سے ہونے والی مانگ بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ چین کا گزشتہ سال (جنوری – فروری) کے مقابلے میں اس سال ان دو مہینوں میں درآمد 17.2 فیصد کم ہوئی ہے۔ چین سے مل رہی پختہ معلومات کے مطابق، وہاں پر فیکٹری پیداوار اس ماہ کے آخر تک ہی کافی حد تک رفتار پکڑنے میں کامیاب ہوں گے، تو یہ سمجھ لیں کہ کورونا کے اثر سے باہر آتا چین اب دنیا کو تمام ضروری اشیاء کی سپلائی کرکے اربوں ڈالر کمائے گا۔ وہ اب اس اقتصادی تحریک کی تیاری میں مصروف ہو گیا ہے۔جب چین میں کورونا کے اثرات اپنے عروج پرتھے، تب وہاں سے دیگر ممالک کی صنعتوں کو ضروری اشیا کی سپلائی تھم سی گئی تھی۔ اس کے سبب دیگر ممالک کو 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ نے یہ اعداد و شمار جاری کیا ہے۔ گزشتہ جنوری مہینے میں کورونا اور چین کے نئے سال کی وجہ سے ہوئی چھٹیوں میں لاکھوں مزدور اپنے گھروں کو بھی چلے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے وہاں پر فیکٹری پیداوار بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔مگر جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، وہاں پر حالات سدھرنے کے بعد اب 70 فیصد کمپنیاں فعال ہو گئی ہیں، جو بنیادی طور پر اپنے مال کا دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہی کرتی ہیں۔ اس طرح کا دعوی چین کی وزارت تجارت کا ہے۔
نیویارک ٹائمز اور دی گارجین جیسے اخبارات کا دعوی ہے کہ چین کے انتہائی اہم جدید شہر شنگھائی میں نائٹ کلب شروع ہو گئے ہیں۔ وہاں پر لوگ مے نوشی بے فکر ہو کر پہلے کی طرح کر رہے ہیں۔ میں شنگھائی 1990 میں گیا تھا۔ اس وقت بھی وہ ممبئی سے زیادہ جدید اور ترقی یافتہ لگ رہا تھا۔ میری مترجم ایک سرکاری نوخیز ڈاکٹر تھی جو اضافی پیسے کمانے کے لئے مترجم کا کام کر رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے والد پروفیسر ہیں، ماں نرس ہے، آپ ڈاکٹر ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ سرکاری نوکری میں پیسہ زیادہ نہیں ملتا، پر بانڈ ختم ہونے پر پرائیویٹ اسپتال میں کام تو مل سکتا ہے؟ اس نے بہت ہی بیباکی سے کہا کہ مجھے انتظار نہیں کرنا۔ جلدی – جلدی ڈھیر سارے پیسے کما کر امریکہ بھاگنا ہے اور وہاں ڈاکٹر کی جاب لینیہے اور کسی بڑے پیسے والے امریکی لڑکے سے شادی کر کے موج کی زندگی گزارنیہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ماں – باپ کو اکیلے چھوڑ کر چلی جاؤ گی؟ اس نے شرارت بھری نظروں سے مسکراتے ہوئے کہا، “جب امریکی شوہر ہو جائے گا تب مجھے بھی شہریت مل جائے گی امریکہ کی اور پھر میرے ماں – والد صاحب کو بھی تو وہاں کا گرین کارڈ مل ہی جائے گا نا؟ یہ تو 1990 میں چین کی ایک نو خیز لڑکی کی ذہنیت تھی، تب آج کیا ہوگایہ تو کوئی بھی تصور کر ہی سکتا ہے؟
اور تو اور، ان میں آنے والے لوگ ماسک نہیں پہن رہے۔ اس سے صاف ہے کہ چین میں زندگی اب تو عام ہونے ہی لگیہے۔ ادھر، بیجنگ کی اہم سڑکوں پر ٹریفک بھی رفتار پکڑ رہی ہے۔ یعنی لوگگھروں سے کام کاج کے لئے باہر ہیں۔ عوام کو پارکوں میں گھومتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
یعنی چین نے تو اب اگرچہ سخت نظم و ضبط کی بدولت ہیکورونا پر فتح پا لی ہے۔ یہ خبر باقی دنیا کے لئے سکون دینے والی تو ہے ہی۔ پر اب تو ایسا ہی لگتا ہے کہ ساری دنیا کو چین کی درآمد پر منحصر رہنا ہوگا۔ اگر بات دنیا کی اہم فارما سیکٹر کی کمپنیوں کی کریں تو وہ اپنی عام ادویات بنانے اور ان کو برآمد کرنے میں کافی حد تک چین پر ہی منحصر رہتی ہیں۔ انہیں ادویات کی پیداوار چین سے ایکٹیو فارما سیوٹیکل انگریڈینٹس (اے پی آئی) درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اسے آپ ادویات بنانے کا خام مال کہہ سکتے ہیں۔ اگر بات بھارت کی کریں تو ان ادویات کو بنانے کے لئے تقریبا 75 فیصد خام مال تو چین سے لینا پڑتا ہے۔ زمینی حقیقت تو یہی ہے، آج کے دن۔ تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیںکہ بھارت کی فارما کمپنیوں کے سامنے اس وقت کتنا بڑا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ابھی سے ہی بازاروں سے آنکھوں میں پریشر ختم کرنے کے لئے ڈالی جانے والی دوا لومیگن غائب ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے بھارتی کمپنیاں بنا ہی نہیں پا رہی ہیں، کیونکہ ان کے پاس خام مال ہی نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ ضروری ادویات کی فہرست میں شامل تقریبا دس ادویات ایسی ہیں جن کی پیداوار چینی خام مال سے ہی ممکن ہے۔ یہ واقعی ایک بدقسمتی ہے کہ ہمارا فارما سیکٹر بہت حد تک چین پر منحصر ہے۔ بھارت نے سال 2018-19 میں دنیا کے 150 سے بھی زیادہ ممالک میں 9 کروڑ ڈالر سے زیادہ قیمت کی دوائیں برآمد کیں تھیں۔ پر یہ ہوا تو اس کی وجہ کیونکہ ہمیں چین سے مسلسل خام مال مل رہا تھا۔ایک اشارہ اب صاف نظر آ رہا ہے کہ کورونا سے تنزل پذیر بھارت کی معیشت کو چین کی مدد کی ضرورت تو پڑتی رہے گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ڈوکلام تنازعہ کے بعد دونوں ممالک کے سربراہ رہنماؤں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن کی سمجھداری سے دونوں ممالک کے تعلقات بہترہو رہے ہیں۔ چینی صدر گزشتہ سال بھارت کے دورے پر آئے بھی تھے۔ تب ان کا بھارت میں غیر معمولی استقبال بھی ہوا تھا۔ اگرچہ اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ 1962 کی جنگ کی تلخ یادیں اب بھی بھارتی عام لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔ پھر جو کچھ بھی کہیے، بھارت اور چین نے ایک عالمی پڑوسی قوموں کے طور پر دوطرفہ تعلقات میں ایک لمبا فاصلہ طے کرلیاہے۔ چینی کمپنیاں بھارت میں زبر دست سرمایہ کاری کو لے کر خاصا مثبت رخ اپنا رہی ہیں۔ دہلی سے ملحق گروگرام میں ہزاروں چینی شہری بھی رہ رہے ہیں۔ یہ بھارت میں ملازم مختلف چینی کمپنیوں کے پروفیشنل ہیں۔مطلب چین کا نجی شعبہ اب بھارت سے تعلق بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اسے ہندوستان کی وسیع مارکیٹ کی معلومات، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ چین کی تمام مقامی – غیر ملکی کمپنیوں میں چین کی کمیونسٹ پارٹی یعنی چین کی حکومت کا ان میں 50 فیصد شیئر ہوتا ہے۔کورونا کی مار سے باہر نکلتے چین کی طرف ساری دنیا آج امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔بھارت بھی اس میں اچھوتا نہیں ہے۔ اب چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا سے بے حال دنیا کے زخموں پر مرہم لگائے۔ جی ہاں، اس سلسلے میں اس کی معیشت تو ترقی کی بلندیوں کی جانب بڑھتی ہی رہے گی۔

Previous article13 April 2020
Next article’کورونا‘لاک ڈاؤن اور میڈیا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here