علی گڑھ :مسجد کے امام کے ساتھ پولس نے کی مارپیٹ

پولس کا کسی بھی مسجد کے امام کے ساتھ اس طریقہ سے مارپیٹ کرنا قانونی جرم ہے:حاجی ضمیر اللہ

0
19

علی گڑھ: ضلع کے تھانہ جواں قصبہ میں اس وقت افرا تفری مچ گئی جب جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کے بعد پولس نے مسجد سے جمعہ کی نماز ادا کرانے والے امام سمیت سبھی نماز ادا کرنے والے افراد کو گرفتار کر تھانے لے گئی جہاں امام مولانا محمد فیروز کو مجرموں کی طرح بے رحمی سے پیٹنے کے بعد سبھی نمازیوں کے سامنے گندی گندی گالیاں بھی دی گئیں۔
اس معاملہ کی شکایت سابق ممبر اسمبلی حاجی ضمیر اللہ خان کو ملنے کے بعد انہوں نے امام کو پیٹے جانے کے المناک واقعہ کی شکایت پولس و انتظامیہ کے اعلیٰ افسران سے کی ہے۔ایس پی سٹی ابھشیک نے فون پر یو این آئی کو بتایا کہ جواں علاقہ میں واقع مسجد میں اجتماعی طور پر نماز کی ادائیگی ہو رہی تھی اس کے خلاف تھانہ پولس نے مقدمہ درج کیا ہے اور اگر امام کے خلاف مارپیٹ کئے جانے کی شکایت ملتی ہے تو سرکل آفیسر سے اس کی جانچ کرانے کے بعد جو بھی قصوروار ہوگا اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
جامع مسجد جواں کے خطیب و امام مولانا فیروز عالم نے پریس کو دئے اپنے بیان میں بتایا کہ محض 10 افراد کے ساتھ وہ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرانے کے لئے مسجد میں داخل ہوئے تھے جبکہ اس سے قبل انہوں نے مسجد کے مائک سے ہی یہ بھی اعلان کیا تھا کہ سبھی حضرات اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کریں۔نماز ختم ہوتے ہی پولس کے چند اہلکاروں نے مسجد سے ہی انہیں گرفتار کر لیا جبکہ کچھ لوگوں کو گھر سے اٹھا کر تھانے میں موجود ایک کمرے میں بند کرکے انکے ساتھ بد سلوکی کرتے ہوئی مار پیٹ کی گئی جو کہ قانون کے خلاف ہے انہوں نے حکومت اتر پردیش سے منسلکہ پولس عملہ کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
وہیں دوسری جانب سابق ممبر اسمبلی حاجی ضمیر اللہ خان نے کہا کہ پولس کا کسی بھی مسجد کے امام کے ساتھ اس طریقہ سے مارپیٹ کرنا قانونی جرم ہے اور اس طرح کی کسی بھی کاروائی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ اتر پردیش پولس جس طرح سے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اور مساجد کے امام حضرات کے ساتھ جانبداری سے کام لے رہی ہے وہ قانون کے خلاف ہے۔
انہوں نے پریس کے سامنے اعلان کیا کہ جو پولس اہلکار اس افسوسناک واقعہ میں ملوث ہیں اگر ان کے خلاف 48گھنٹہ میں کاروائی نہیں ہوئی تو اس کے خلاف تھانے پر ہی عوام کو ساتھ لیکر دھرناو احتجاج کیا جائیگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here