کرونا مریض کی ڈائری کا ایک ورق

0
55
محمد شاہد خان 

قسط -2
محمد شاہد خان
کروناجی کے قید بامشقت میں ناچار جانا مقدر تھا ، ہوا یہ کہ دودن ہلکا سا بخار آیا ہم نے راحت جاں کی تلاش میں کلینک کا رخ کیا ، بلڈ ٹیسٹ کا مشورہ دیا گیا ، تھوڑی دیر میں ٹیسٹ رزلٹ آگیا ڈاکٹر نے
مجھے فون کیا
ڈاکٹر کے لہجے میں گھبراہٹ تھی
میں نے پوچھا کیا ہوا ؟
ڈاکٹر نے جواب دیا : آپ بالکل نہیں گھبرایئے گا ، پانی خوب پیجئے گا نمک پانی کا غرارہ کیجئے گا اللہ تعالی آپ کو صحت نصیب کرے
ڈاکٹر کی گھبراہٹ سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اب میں چند ہفتوں کا مہمان ہوں
میں نے پھر وہی سوال دہرایا کہ کیا ہوا ؟
ڈاکٹر نے جواب دیا : آپ کے بلڈ میں کچھ علامتیں ظاہر ہورہی ہیں آپ COVID-19 کا ٹیسٹ کروالیجئے میں نے کہا : بہتر ہے ابھی کروالیتا ہوں مجھے اسوقت تھوڑی ایمانی کمزوری لاحق ہوگئی اور آ بیل مجھے مار ، کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے میں پوری رات ٹیسٹ کے لیے مختلف طبی مراکز کے چکر لگاتارہا اور بالآخر ایک جگہ ٹیسٹ کروانے میں کامیاب ہوگیا ، دوسرے دن رزلٹ انکواری کے لیے خود ہی فون کیا ، دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی : آپ نگیٹیو نہیں ہیں لیکن پازیٹیو بھی نہیں ہیں آپ کا دوبارہ ٹیسٹ ہوگا
پھر اس کے بعد شام میں ایک ایمبولینس کو بھیج دیا گیا میں نے سوچا کہ مجھے دوبارہ ٹیسٹ کے لیے لے جایا جارہا ہے لیکن مجھے Quarantine قرنطینہ کے لیے لے جایا جا رہا تھا ۔قرنطینہ تک پہونچنے کے لیے ایک طویل مشقت سے گزرنا پڑا ایسا محسوس ہو ا کہ جیسے میں موت وحیات کے درمیان جھول رہا ہوں ، تقریبا اٹھارہ گھنٹوں کے خوفناک مشقت کے بعد مجھے ایک قرنطینہ سنٹر پہونچا دیا گیا مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں ,کرونا مجرم , ہوں حالانکہ کرونا جی سے رفاقت کی میری اپنی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ یہ رفاقت جبریہ تھی ۔
میں تھکان سے نڈھال کمرے میں پہونچا اور بستر پر لیٹتے ہی سوگیا ۔جب سوکر اٹھا تو سورج شفق کے اجالوں میں غروب ہو رہا تھا ، میں نے جلدی سے غسل کیا ، اپنے ہاتھوں سے ایک کپ چائے تیار کی اور کمرے سے باہر نکل کر راہدراری میں آگیا، میری رہائش ایک کمپاؤنڈ کے اندر ہے یہ کمپاؤنڈ کرونامتاثرین کے لیے خاص ہے ، شام ہوچکی تھی راہداریاں روشن تھیں ، اوپر مکانوں کی کھڑکیوں سے چھن چھن کر روشنی باہر آرہی تھی اوپر نیلگوں آسمان میں ستارے اپنی روشنی بکھیر رہے تھے ، کچھ لوگ اپنے کمروں سے باہر کرسیاں لگائے خوش گپیوں میں مصروف تھے تو کچھ لوگ تیز تیز چہل قدمی کررہے تھے ، یہاں ہر عمر کے لوگ تھے چھوٹی عمر کے معصوم بچوں سے لے کر ادھیڑ عمر تک سبھی قسم کے افراد موجود تھے بعض ولوں میں تو پورا پورا خاندان آباد تھا یہ سب کرونا سے متاثرین تھے ، یہاں کا ماحول دیکھ کر ہمارے دل سے کرونا کا خوف مٹ گیا ، باہر جس طرح خلق خدا کی بیزاری اور خوف کا سامنا تھا وہ یہاں ناپید تھا یہ اپنے ہی لوگوں کی بستی تھی جہاں نہ کوئی خوف تھا اور نہ کوئی اندیشہ ۔دیر رات تک مست خرامی کے بعد میں نید کی آغوش میں چلاگیا صبح ڈاکٹر کا فون آیا انھوں نے خیریت دریافت کی ، میں خود کو بالکل فٹ محسوس کررہا تھا انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ پلازما کے لیے اپنا بلڈ دینا چاہیں گے میں نے کہا شوق سے ، اگر میرا خون کچھ زندگیاں بچا سکے تو بھلا اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے ۔اس وقت ہمیں سبھاش چندر بوس کی بڑی یاد آئی ، غلامی سے آزادی دلانے کے لیے حریت پسندوں سے انھوں نے بھی خون ہی کا مطالبہ کیا تھا اس لیے اگر جنگ آزادی کے دوران اس دنیا میں ہمارا وجود مسعود ہوگیا ہوتا تو اس رسم الفت کو نبھانے سے ہم ہرگز گریز نہ کرتے خیر اسوقت وطن کو ہمارے خون کی ضرورت نہ سہی لیکن کرونا سے آزادی کے لیے مواطنین ( ملکی باشندے )اور مقیمین ( غیر ملکی باشندے )کو تو تھی ، بہرحال ہمیں یہاں کا ماحول دیکھ کر کافی اطمینان حاصل ہوا کیونکہ کرونا جی نے باہر جو ڈر پیدا کر رکھا تھا اس کے مقابلے میں ان کی اپنی آبادی میں کافی سکون تھا۔یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ کرونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے یا یہ کسی لیب ٹسٹنگ (LAB TESTING )کا نتیجہ ہے ،اس کے یلغار سے کس کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا ؟ کون اس کے قہر کا سب سے زیادہ شکار ہوگا ؟ نئی عالمی معیشت کھڑا کرنے میں کس کی چال کامیاب ہوگی ؟ نئی دنیا کے ظہور کے بعد کس کا کیا مقام ہوگا ؟ نیا سوپر پاور کون ہوگا اور کون گھٹنوں کے بل رینگنے لگے گا ؟ دنیا کو چلانے کی عصا کس کے ہاتھ میں ہوگی ؟ انسان کتنا خود مختار اور کتنا مجبور ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔لیکن ایک بات میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے کرونا سے صرف آپ کو مضبوط مدافعتی نظام ہی بچا سکتا ہے ، کرونا سے لڑنے کے لیے ڈاکٹر آپ کو بخار نزلہ زکام اور کھانسی کی چند دوائیاں دے گا تاکہ آپ کے جسم کا مدافعتی نظام ٹھیک سے کام کرنے لگے اور آپ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہوجائیں اس سے آگے کا کام آپ کی قوت حوصلہ کو کرنا ہے ۔اگر آپ کو ہلکا بخار یا نزلہ زکام ہے تو معمول کی دوائیں کھا کر خود کو صحت مند بنانے کی کوشش کیجیے وٹامن سی اور ملٹی وٹامنس کی غذائیں لیجئے اور خود کو رجسٹرڈ مریض بنانے کی حماقت مت کیجئے لیکن اگر بخار مستقل آزار بن جائے ، گلے میں خراش یا سانس لینے میں تکلیف بڑھ جائے تو آپ گھر میں بیٹھے رہنے کی مزید حماقت مت کیجیے بلکہ جلد از جلد اپنا ٹسٹ کروائیے اور طبی امداد حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ممکن ہے کہ اسوقت آپ پردیس میں ہوں یا روزگار کے سلسلے میں کہیں لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہوں یا ہماری طرح کسی قرنطینہ میں ہوں اور اپنے عزیز واقارب کو مِس کررہے ہوں ، والدین کے سایہ عاطفت کے لیے آپ کی طبیعت بے چین ہو ، اماں کے ہاتھوں کے پراٹھے کھانے کے لیے من للچا رہا ہو ، بیوی کا سولہ سنگھار دیکھنے کے لیے دل مچل رہا ہو ، بچوں کے ساتھ اکّڑ بکّڑ کھیلنے کے لیے طبیعت اُچھل رہی ہو۔ یقینا ان سب کی آپ کی خواہش ہوگی اور حالات کی سنگینی پر اسوقت آپ کو غصہ آرہا ہوگا ۔لیکن تھوڑا صبر کیجئے اپنے حوصلے کو چٹان کیجئے سماجی دوری بنائے رکھئے طبی ہدایات پر عمل کرتے رہیے یورپ میں ہونے والی اموات سے خوف زدہ مت ہویئے اور کچھ دن اور انتظار کرلیجئے کیونکہ زندگی بہت خوبصورت ہے اور کوئی ہے جو اُس پار بڑی بے صبری سے آپ کا بھی انتظار کررہا ہے۔
(جاری )
(مضمون نگار ’کاروان اردو قطر‘ کے بانی رکن اور جنرل سکریٹری ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here